حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،تحقیق اور علمی وتحقیقی مجلات کی ضرورت،افادیت اور عصری تقاضوں کے موضوع پر ایک فکری نشست جامعۃ النجف سکردو میں منعقد ہوئی جس میں مختلف مایہ نازاہل قلم اور اسکالرز شریک ہوئے۔
جامعہ النجف کے استاد اور قلمکار آقا سید محمد علی شاہ موسوی نے تمام معزز شخصیات کا تعارف پیش کیا اور انہیں تحقیق کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں اظہار خیال کی دعوت دی۔
شیخ الجامعہ شیخ محمد علی توحیدی نے تعارفی کلمات میں کہا کہ ےحقیق کے بارے میں ائمہ معصومین کے اقوال زیادہ ہیں مگر ہم تحقیق اور ریسرچ میں پیچھے ہیں۔ہمارے اداروں میں تحقیق کو پہلی ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔اس وقت مختلف علمی مراکز سے پی ایچ ڈیز کی کافی تعداد نکل رہی ہے جنہیں میدان فراہم کرنا ہمارا فرض ہے۔اسی لیے یہ نشست ارباب تحقیق کے تجربات اور تجاویز سے استفادہ کرنے کے لیے منعقد کی گئی ہے۔
محقق اور ریسرچر سکندر علی بہشتی نے جامعہ النجف کی حالیہ تحقیقی پیشرفت کی مختصر رپورٹ پیش کی اور کہاکہ قوموں کے عروج کے لیے ایسی شخصیات کی ضرورت ہے جو اعلیٰ سوچ،درد دین،جہد مسلسل اور بلند اہداف رکھتی ہوں۔خوش قسمتی سے آ ج کی نشست میںں ایسی شخصیات یکجا ہیں جن کے تجربات ہمارے لیے راہکشا ثابت ہوں گے۔
معروف اسکالر کاظم سلیم نے کہا کہ تحقیقی عمل انتہائی مفید اور اس کا آغاز خوش آیند ہے مگر اس کی شرط جهد مسلسل ہے۔یہ کام محنت طلب ہے اور اس شعبے میں قحط الرجال دکهائی دیتا ہے۔دوسرا اہم مسئلہ زبان شناسی کاہے۔ہم نے تحقیقات کو عصری زبان میں پیش کرنا ہے ۔پہلے معاشرتی مسائل کو سمجھنے پهر انہیں تحقیقی اور سلیس زبان میں پیش کرنے کی ضرورت ہے.
جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا : جامعہ النجف تحقیق کے حوالے سے کئی سالوں سے پر عزم ہے جب کہ پاکستان میں تحقیق کا رجحان بہت کم ہے۔دارالتحقیق کا قیام ضروری ہے جو دوسروں کے لیے نمونہ بنے، محققین کی رہنمائی کرے اور ان کے لیے پلیٹ فارم مہیاکرے۔
ڈاکٹر اسحاق علی رضا نے کہا:سب سے پہلے تحقیق کے دائرہ کار اور اہداف کو مشخص ہونا چاہیے. تحقیقی کام کے لیے دوسروں کے معیاری تجربات سے استفادہ ضروری ہے.
محقق اور قلمکار شیخ غلام محمد ملکوتی نے ایک جامع تحقیقی ادارے کے قیام کوتحقیق کا پہلا قدم قرار دیا۔
جامعہ النجف کے وائس پرنسپل شیخ احمد علی نوری نے کہا کہ تحقیق کا پہلا ہداف دین اسلام کے پیغام کو معاصر دنیا تک پہنچانا ہے۔ ہر دور میں ابلاغ دین کے ذرائع مختلف ہوتے ہیں۔اس دور میں تحقیق سب سے موثر وسیلہ ہے۔قرآن،سنت اور سیرت اہل بیت کو تحقیقی قالب میں علمی حلقوں میں پیش کریں۔
دوسرا اہم ہدف آنے والی نسلوں کو تحقیقی رموز سے آشناکرنا اور اس جانب رہنمائی ہے۔
نشست کے آخری مقرر معروف محقق ڈاکٹر یعقوب بشوی صاحب نے تحقیق کے حوالے سے کہاکہ دنیا میں تمدن قلم سے ہی وجود میں آیا۔مگر ہمارا معاشرہ قلم کی طاقت سے آگاہ نہیں۔
قرآن کی پہلی وحی میں تعلیم وتحقیق کی جانب اشارہ ہے۔اقرا تعلیمی نظام اور قلم تحقیق کی طرف اشارہ ہے۔ اسلام کی تعلیمات ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔مجلات علمی تحقیقی میدان کا نکتہ آغاز ہیں. تحقیق وسیع شعبہ ہے جس کے لیے ہمیں مختلف شعبوں کے ماہرین کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر بشوی نے مزید کہا آپ مرکز تحقیق کی بنیاد رکھیں۔ ضروری نہیں اہداف فوری حاصل ہوں۔دنیا سو سال بعد کاسوچتی ہے۔جامعہ النجف کی جانب سے تحقیق کا سلسلہ ان کی احساس ذمہ داری کی علامت ہے۔ہم ہر قسم کے تعاون کے لیے آمادہ ہیں۔